ہمارا ہونا بھی کتنا ضروری تھا۔۔۔۔۔!

 

 

ہمارا ہونا بھی کتنا ضروری تھا

 عادل سیماب


 آیئنے میں دیکھتے رہے، سوچتے رہے

 

ہمارا عکس ہمیں دیکھ کر مسکراتا رہا

 

آنکھوں کے گرد بنے ہالے گہرے ہوتے گئے

 

ہمارا ہونا بھی کتنا ضروری تھا

 

سنسان راہوں پہ چلتے ہوئے، ہاتھ ملتے ہوئے

 

اپنے سائے کو پھلانگنے کی جستجو میں

 

قریہ قریہ بھٹکتے رہے

 

سانس پھولنے لگی ، قدم بوجھل ہوئے تو

 

خود سے کہا، لوٹ چلو

 

پلٹ کے دیکھا تو راستے دھند تھے

 

زمیں کی طرف دیکھا تو خود اپنا سایہ گھٹ چکا تھا

 

ایسے لگا جیسے مہ و سال کی شاہراہوں پہ چلتے ہوئے

 

میرا وجود قریہ قریہ بٹ چکا تھا

 

ہمارا ہونا بھی کتنا ضروری تھا

 

شہر کے مرکزی چوک میں فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوئے

 

میں خود سے الجھتا رہا

 

میں جسم ہوں کہ خیال ہوں؟

 

میں جسم ہوں تو  محنت کی بھٹی میں جل چکا ہوں

 

میرے وجود کے خلیے۔۔۔

 

کسی کا گھر بنانے میں

 

کسی کھیت میں ہل چلانے میں

 

کسی شاہراہ پہ ریڑھی کھینچنے میں

 

کسی شہر کی گلیوں میں شب بھر سیٹیاں بجاتے ہوئے

 

گرمی سردی کا عذاب جھیلنے میں

 

کسی فیکٹری میں دھواں پیتے ہوئے

 

قطرہ قطرہ جیتے ہوئے ۔۔۔

 

راہوں کی دھول ہو گئے ہیں

 

اور جسم خود اپنی ضرورتوں تلے دبا سسک رہا ہے ، بلک رہا ہے

 

میں خیال ہوں تو

 

کہاں جا کر اپنی فریاد رکھوں

 

کسی تخت نشیں کی تلاش میں

 

میرا کاغذی پیرہن پھٹ چکا ہے

 

میرا ہر یقیں  بے یقینی کی رات میں کھو چکا ہے

 

شاید یہی وہ آخری حادثہ تھا ، جو ہو  چکا ہے

 

اب بس خود سے پوچھتے ہیں

 

ہمارا ہونا بھی کتنا ضروری تھا

 


Comments

Popular posts from this blog

الجھن۔۔۔۔۔!

ماروی